ستم بھی لطف ہو جاتا ہے بھولے پن کی باتوں میں
تجھے اے جان، اندازِ جفا اب تک نہیں آیا
گیا تھا کہہ کے یہ قاصد کہ الٹے پاؤں آتا ہوں
کہاں کم بخت جا کر مر رہا، اب تک نہیں آیا
کہاں کم بخت جا کر مر رہا، اب تک نہیں آیا
ستم کرنا، دغا کرنا، کہ وعدے کا وفا کرنا
بتاؤ، کیا تمہیں آیا ہے؟ کیا اب تک نہیں آیا؟
بتاؤ، کیا تمہیں آیا ہے؟ کیا اب تک نہیں آیا؟
بتا دیں آ گیا کیا تم کو اس اٹھتی جوانی میں
بتا دیں کان میں چپکے سے کیا اب تک نہیں آیا
بتا دیں کان میں چپکے سے کیا اب تک نہیں آیا
No comments:
Post a Comment